رسم وفا پرستی
کبھی نہ دستِ ہنر سے کوئی رشتہ ٹوٹنے پایا
طاقت کی زباں سے بھی تعلق کو بچا رکھا
تھا میں ناداں رہا نازاں فلک تک تھی نگار یار
فکر کیا گنج قارون کی متع مایہ نہ سرمایہ
پہلی سرد اندھیری رات میں جو سب کہیں چھوٹے
وہ میرے یار میرے غم خوار میرا کل سرمایہ تھے
میں تھا بھُولا یہ کیوں بھولا کہ ہر رستے کی منزل پر
حقیقی کامیابی کو زر سے تولا جاتا ہے
سنہری سکوں کی کھنک ٹھہری رتبے کا پیمانہ
مقام بزرگی و ذہانت کو جواہر منتخب کرتے ۔۔
وفا ایک جوہر بیکار نہ کوئی مول نہ کوئی بھار
بازار زمانہ میں نہ کوئی لینے کو تیار
ہوں پریشان وحیران وہ یار غار میرے ہمدرد
چند سائے سے لہراتے ہوئے اور رات آماوسیا
کیا ہو بیاں سود و زیاں ، طمع و خسارہ دل
حقیقت آشنائی پر پلک بس بھیگ جاتی یے۔
نوید اسلم
مزید پڑھیں؛