اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں

 

اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں


اشعار میرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط انکو سنانے کے لیے ہیں

اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں۔

سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی ورنہ
یہ فقط آگ بجھانے کے لیے ہے

آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں ۔

دیکھوں تیرے ہاتھوں کو تو لگتا ہے تیرے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں۔

یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
ایک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں۔


مزید پڑھیں؛

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے

آرکائیو